غزل |
بے ثمر اور بے نشاں گزری |
عمر بے فیض و رائیگاں گزری |
کٹ گئی رزق کی مشقت میں |
عیش کی عمر بے اماں گزری |
آخری منزلیں ہیں جیون کی |
گرچہ مشکل ابھی کہاں گزری |
بادِ صَرصَر چلے جُوں گلشن میں |
آہ سینے سے یُوں فغاں گزری |
زیست مشکل کٹی ہمیشہ پر |
اس برس سختیِ گراں گزری |
یاد کر کے جناب روئیں گے |
گو نصیحت اَبھی گراں گزری |
“عالیہ “ کی حسین قربت میں |
چند لمحے تھے شادماں گزری |
جو وطن میں شہاب گزری تھی |
خیر غربت میں بھی کہاں گزری |
شہاب احمد |
۳۱ دسمبر ۲۰۲۴ |
معلومات