غزل
رنج بھی راحت فزا ہیں نفس کی تسخیر میں
پھوٹتی ہیں راحتیں ہر حلقۂ زنجیر میں
اب مجھے ظلمات سے کوئی بھی اندیشہ نہیں
آئینہ دل کا مجلا ہے نئی تنویر میں
صرف اِک اسمِ محمدﷺ ہے وہ بس بعد اَز خدا
رُوح کو تسکیں ملے جس اِسم کی تذکیر میں
اِلتجا ہے یا الٰہی دے بصیرت کی نگہ
دیکھتی ہو جو نیا منظر ہر اک تصویر میں
گوشہ گوشہ اک نئی تنویر سے روشن ہوا
جب کبھی شامل ہُوا حُسنِ نظر تصویر میں
عشق نے پیدا کیاہے ہرجہانِ نو یہاں
کار فرما ہے جنوں ہر اک نئی تسخیر میں
منہ تِجوری کا کبھی بے سُود تو کُھلتا نہیں
لازماً کچھ فائدہ مُضمر ہے اِس تشہیر میں
کل زمانہ کھود لے گا آپ کا کھنڈر کہیں
کھوٹ گر شامل کرو گے آج کی تعمیر میں
سرفروشوں نے چُنا ہے خاص یہ مَقتل اگر
بات کچھ تو ہے یقیناً آپ کی شمشیر میں
چَین کی لِِیلا سُناتے ہیں نئی دہلی سے وہ
خُون پیہم بہہ رہا ہے وادیِ کشمیر میں
صد تفاخر سے شہاب احمد سناؤ تم غزل
رنگ غالب کا جھلکتا ہے تری تحریر میں
شہاب احمد
۱۵ مارچ ۲۰۱۹

0
83