غزل
کہیں سروش صفت ہے کہیں پہ ہے شیطاں
کہ خیر و شر کا حسیں امتزاج ہے انساں
میں منتظر ہوں وہ اک روز بھول جائیں گے
مُکر چکے ہیں وہ سو بار کر کے یہ پیماں
یہ خاک و خون میں لتھڑے پڑے ہیں کیوں لاشے
یہ خلقِ نَو نہیں آئی زمیں پہ ہیں انساں
زمین اٹھائے جو پھرتے تھے آسمانوں پر
مِٹا دیا ہے اُنہیں تُو نے گردشِ دَوراں
تلاش رہتی ہے ہر دم نئے مسیحا کی
کہ ایک دَرد سے ہوتا ہے دُوسرا دَرماں
حضور فکر و عمل کا فروغ ہے واں پر
وہ شہر جن میں مواقع ہوں خلق کو یکساں
معاشروں کی ترقی اسی میں ُمضمر ہے
فقط ہنر سے ہر آدمی کی ہو پہچاں
وہاں تو چور لٹیرے ہی مقتدر ہوں گے
کہ مال و زر سے جہاں آدمی کی ہو پہچاں
دَروغ گُوئی جہاں اِفتخار بن جائے
جُنون حَق و صداقت کا ہے وہاں عنواں
شہاب آپ فرشتہ مجھے نہ بنوائیں
میں جانتا ہوں شرف آدمی کا ہے انساں
شہاب احمد
۲۷ اکتوبر ۲۰۱۷

0
86