غزل |
تماش بین کھڑے ہیں قطار میں سارے |
لگی ہے آگ مرے کوئے یار میں سارے |
نفیس دوست شب و روز ساتھ ہنستے تھے |
الجھ گئے ہیں غمِ روزگار میں سارے |
زمین و زر کی محبت میں مبتلا ہیں سب |
پھنسے ہوئے ہیں عجب خلفشار میں سارے |
اچھالتا ہے ہر اِک دُوسرے کی پگڑی کو |
جتُے ہوئے ہیں اِسی کاروبار میں سارے |
تفرقات میں بٹتے ہیں جتنی سرعت سے |
تو مٹ نہ جائیں کہیں انتشار میں سارے |
نجات دینے ہمیں پھر مسیح آتے ہیں |
تبھی تو بیٹھے ہیں ہم انتظار میں سارے |
ابھی خزاں ہے یہ پَت جَھڑ کا وقت ہے یارو |
شجر کھلیں گے دوبارہ بہار میں سارے |
بنا رہے تھے حسیں پھلجھڑی مری خاطر |
شہاب ٹوٹے شب انتظار میں سارے |
شہاب احمد |
۶ جون ۲۰۲۲ |
معلومات