| غزل |
| ہم نے کیا ہے پیار، ہمیں اعتراف ہے |
| صد عز و انکسار، ہمیں اعتراف ہے |
| اک ساحرہ کے سِحر نے دل کو جکڑ لیا |
| ٹوٹا نہ پھر حصار، ہمیں اعتراف ہے |
| اِس نازشِ بہار پہ جب سے فدا ہے دل |
| اک پل نہیں قرار، ہمیں اعتراف ہے |
| اس کی شبیہ شیشۂ دل سے نہ مٹ سکی |
| ٹکڑے کئے ہزار،ہمیں اعتراف ہے |
| بے سود جوشِ عشق میں برباد کر دیئے |
| ناموس اور وقار، ہمیں اعتراف ہے |
| دل اور دماغ رہتے ہیں ہر وقت دُوبَدُو |
| برپا ہے خلفشار، ہمیں اعتراف ہے |
| سرزد شہاب دن میں خطائیں ہزار ہوں |
| صد عجز و انکسار ہمیں اعتراف ہے |
| شہاب احمد |
| ۱۲ دسمبر ۲۰۲۵ |
معلومات