| غزل |
| عمر درکار ہے اِک کار ہنر ہونے تک |
| رَوز کوشاں ہوں تِری زُلف کے سَر ہونے تک |
| حُسن مصروف ہے زیبائشِ زینت میں مگن |
| عِشق مامور ہے اِک لُطف نظر ہونے تک |
| ہم طلب گارِ توجہ تھے بھکاری بن کر |
| راہ میں بیٹھ رہے لطفِ نظر ہونے تک |
| خشک و تر چھان کے ہوتا ہے مدبر آدم |
| حوصلہ چاہئے موسیٰ سے خِضر ہونے تک |
| شوقِ تعمیر میں دِیوار نئی مت چُننا |
| عمر اِک چاہئے دِیوار کے دَر ہونے تک |
| فکر دستار کی ہوتی، کبھی سر کی ہوتی |
| خَوف ناحق مجھے لاحق تھے نڈر ہونے تک |
| رابطہ عشق میں رہتا ہے اَجل سے پیہم |
| رَوز تاکید سے مرنا ہے اَمَر ہونے تک |
| شوقِ پرواز تو صیاد نہیں نوچ سکا |
| دل قفس ہی سے لگا لیتے ہیں پر ہونے تک |
| خوب انصاف ہے اَے عادلِ مطلق تیرا |
| شر کو رخصت ہے کُھلی حشر نشر ہونے تک |
| عَزم آمادہ ہے اَب راہِ عَدم کی جانب |
| منتظر بیٹھا ہوں تا حکمِ سفر ہونے تک |
| لو لرزنے لگے سُن کر مرے نالے لیکن |
| شمع چپ سادھ کے جلتی ہے سحر ہونے تک |
| پائیداری نہیں ممکن ہے شہاب عالم میں |
| پُر مسرت ہے شبِ وصل سحر ہونے تک |
| شہاب احمد |
| ۱۱مارچ ۲۰۲۴ |
معلومات