غزل |
چند اپنوں کی عنایات سے دل بوجھل ہے |
آج پھر شورشِ جذبات سے دل بوجھل ہے |
جانے کب صبحِ مسرت کا اجالا چمکے |
ظلمتِ غم کی کڑی رات سے دل بوجھل ہے |
بات کہنے کی وہ کہتے ہیں نہ میں کہتا ہوں |
ایسی بے سود ملاقات سے دل بوجھل ہے |
ہر تعلق ہی سے جی چاہے کنارا کر لوں |
اب کے ہر میل ملاقات سے دل بوجھل ہے |
جھوٹ کہتے ہیں مہارت سے کہ سچ لگتا ہے |
جان ایسی ہی خرافات سے دل بوجھل ہے |
دیکھ کر اب بھی زمانے کے چلن کڑتا ہے |
گویا فرسودہ روایات سے دل بوجھل ہے |
اس کا اک روپ فرشتہ ہے تو اک شیطاں ہے |
اپنے اندر کے تضادات سے دل بوجھل ہے |
ظلم و افلاس کی دنیا میں فراوانی ہے |
ان بگڑتے ہوئے حالات سے دل بوجھل ہے |
زندگی خوب ہی گزری ہے عموماً لیکن |
چند بیکار کی جزیات سے دل بوجھل ہے |
بیٹھ کر پوچھ شہاب اِس سے تُو تنہائی میں |
کچھ تو معلوم ہو کس بات سے دل بوجھل ہے |
شہاب احمد |
۱۸ اپریل ۲۰۲۱ |
معلومات