غزل
جھنجٹ وصال کا ہو نہ یہ انتظار ہو
مر جاؤں ناں خوشی سے اگر اعتبار ہو
دل کے عوض سمیٹ لیا، درد بے کراں
کرتا نہیں خسارہ کوئی کاروبار ہو
کھلتے ہیں شاخِ فکر پہ خوش رنگ صد ثمن
جب شہرِ دل کی آب و ہوا خوشگوار ہو
بن کر لباس ڈھانپ لیا ہے برہنہ تن
تم ہی مری رفیق، مرا افتخار ہو
خود ہی جڑیں اُکھاڑ دیں اپنی زمین سے
اَب تو وہی ہے دیس، جہاں روزگار ہو
ہر دکھ یہی تو سوچ کے سہتا ہے آدمی
شاید یہ مصلحت تری پروردگار ہو
قربان بے بسی پہ کہ بندہ ہوں میں خدا
فرعون بن نہ جاؤں اگر اختیار ہو
چَھٹ جائے پل میں شوق سے سجدہ شہاب کر
سَر میں بھلے گھمنڈ کا جتنا غبار ہو
شہاب احمد
۱۰ جون ۲۰۱۸

0
19