غزل
بنیں ہجوم سے لشکر، چلو چلیں ہم سب
قدم، قدم سے ملا کر، چلو چلیں ہم سب
فساد پھیل نہ جائے تمام خطے میں
اڑائیں امن کبوتر، چلو چلیں ہم سب
ہزار نوع ستم ہیں سماج میں پھیلے
فلاح اِن میں مکدّر، چلو چلیں ہم سب
یہ ایک نقطہ کہ کیسے فلاح ہو سب کی
کریں اِسی پہ تدبّر، چلو چلیں ہم سب
جہاد علم و ہنر سے کریں زمانے میں
دکھائیں علم کے جوہر، چلو چلیں ہم سب
نفیس قوموں میں اپنا مقام اوّل ہو
چنیں وہ خُلق کے گوہر، چلو چلیں ہم سب
بہار لائیں جو دُنیا میں اَمن کی یکسر
اگائیں ایسے صنوبر، چلو چلیں ہم سب
حقوق اپنے نہ چھوڑیں، نہ مشتعل ہی ہوں
بنیں یوں صبر کے پیکر، چلو چلیں ہم سب
افق پہ صبح درخشاں ہے اَمن کی لوگو
دکھائیں بچوں کو منظر، چلو چلیں ہم سب
جومسخرے ہیں انھیں مسندیں نہیں سونپیں
چنیں صدور مدبّر، چلو چلیں ہم سب
شہاب رشک تو آتا ہے اہل مغرب پر
سکون و اَمن ہے گھر گھر، چلو چلیں ہم سب
جو اشتعال دلائے ہمیں کوئی لیڈر
تو پھینکیں انڈے، ٹماٹر، چلو چلیں ہم سب
شہاب احمد
۱۸ مئی ۲۰۲۵

0
10