غزل
آنکھوں کے مے کدؤں کا بھی صدقہ اتارنا
کھلتے ہوئے لبوں کا بھی صدقہ اتارنا
خوشبو اُڑاتی پھرتی ہیں ہر سو فضاؤں میں
زُلفوں کی بدلیوں کا بھی صدقہ اتارنا
پھولوں سی سج رہی ہیں جو رنگِ حنائی میں
رنگیں ہتھیلیوں کا بھی صدقہ اتارنا
رس گھولتی ہیں میری سماعت میں چوڑیاں
چھن چھن کلائیوں کا بھی صدقہ اتارنا
رکھتی ہو مورنی کی طرح ناز سے قدم
سجنی نزاکتوں کا بھی صدقہ اتارنا
اللّٰہ بد نظر سے بچائے تری ہنسی
دانتوں کے موتیوں کا بھی صدقہ اتارنا
جھرمٹ حسیں غزالوں کا، لگ جائے گی نظر
اپنی سہیلیوں کا بھی صدقہ اتارنا
کھلتے ہیں اِن سے تیرے لبوں پر ہنسی کے پھول
جاناں شرارتوں کا بھی صدقہ اتارنا
حاصل ہیں زندگی کا جو چاہت میں ہوں بسر
انمول ساعتوں کا بھی صدقہ اتارنا
جلتے ہیں غیر جاناں ہمارے سلوک سے
بےلوث چاہتوں کا بھی صدقہ اتارنا
سچ مچ شہاب میں تری مداح ہو گئی
میری ستائشوں کا بھی صدقہ اتارنا
شہاب احمد
جون ۲۶ ۲۰۱۸

0
201