| غزل |
| سچ، حقیقت ہے، مشقت نہیں ہوتی ہم سے |
| کُوۓ جاناں کی بھی زحمت نہیں ہوتی ہم سے |
| کام از خود کوئی پھرتی سے ہمارے کر دے |
| صبر کے ساتھ ریاضت نہیں ہوتی ہم سے |
| آپ بولے کہ، کہو، ہم نے شکایت کر دی |
| آئے دِن، ورنہ، شکایت نہیں ہوتی ہم سے |
| حالِ دل روز خیالوں میں بیاں کرتا ہوں |
| پاس بیٹھیں تو جسارت نہیں ہوتی ہم سے |
| زندگی روز ہمیں تازہ سبق سکھلائے |
| کون سا دن ہے، حماقت نہیں ہوتی ہم سے |
| جانے کِِس زُعم میں وُہ بُت ہے کہ ارشاد کیا! |
| تجھ سے کافر سے محبت نہیں ہوتی ہم سے |
| سوچنے اور سمجھنے سے جو قاصر کر دے |
| ایسی بے فیض عقیدت نہیں ہوتی ہم سے |
| صَلب کر دے یہ سبھی فہم و فراست یکسر |
| چھوڑ، بے فیض عقیدت نہیں ہوتی ہم سے |
| سخت تھا کارِ جہاں، پر، کہیں مصروف تو تھے |
| شیخ، جنت میں سکونت نہیں ہوتی ہم سے |
| آئے دِن خُون پسینے میں لَتَھڑ جاتا ہُوں |
| خوب کہتے ہو کہ محنت نہیں ہوتی ہم سے |
| شادماں دل ہو، توخود چہرے پہ رونق آئے |
| محض دکھلاؤے کو زینت نہیں ہوتی ہم سے |
| خاص خوبی کوئی ممتاز ہمیں کرتی ہے |
| ورنہ، یاروں کو رقابت نہیں ہوتی ہم سے |
| رَوز سُولی پہ لٹک جائیں گے لاکھوں لیکن |
| کہنہ رسموں سے بغاوت نہیں ہوتی ہم سے |
| روشنی جن کے ضمیروں میں ہے باقی، بولیں! |
| بربریت کی حمایت نہیں ہوتی ہم سے |
| خُون ریزی میں مَلوث ہَوں، تہی دَستوں کے |
| صدر صاحب، یہ سیاست نہیں ہوتی ہم سے |
| تم عزیزوں سے بہت دُور شہاب اچھے ہو |
| ورنہ کِس کِس کو شکایت نہیں ہوتی ہم سے |
| شہاب احمد |
| ۶ جون ۲۰۲۴ |
معلومات