غزل |
میں ترے روپ کی تصویر بناتا کیسے |
حسن تصویر کے پردے پہ سماتا کیسے |
دیکھ کمبخت تری قید میں خوش ہے کتنا |
دل ستمگر ترے چنگل سے چھڑاتا کیسے |
میں نے ہر طور وفاؤں کی نگہبانی کی |
اپنے آبا کی روایت کو بھلاتا کیسے |
ایک قطرہ تھا سمندر میں امر ہونا تھا |
خود کو غرقاب نہ کرتا تو بچاتا کیسے |
جس کی تعمیر میں اک عمر لٹا دی میں نے |
اس عمارت کو میں ملبے سے اٹھاتا کیسے |
چغلیاں کھانے لگے آنکھ میں گوہر میری |
کرب سینے کا تبسم میں چھپاتا کیسے |
تُو وفا کیش نہ ہوتا تو شہاب احمد پھر |
آج نظریں مری نظروں سے ملاتا کیسے |
شہاب احمد |
۱۰ فروری ۲۰۲۰ |
معلومات