غزل
شیخ ڈرنے کی عمر ہے اپنی
عشق کرنے کی عمر ہے اپنی
مل کے بچپن کے بچھڑے یاروں سے
رقص کرنے کی عمر ہے اپنی
خواب خاکوں میں خوب فرصت سے
رنگ بھرنے کی عمر ہے اپنی
مدح پڑھ کر حسین آنکھوں کی
جام بھرنے کی عمر ہے اپنی
دلبروں کے طواف کرتے دمَ
جل بکھرنے کی عمر ہے اپنی
تم سے مل کر شہاب جی خوش ہوں
پر بچھڑنے کی عمر ہے اپنی
شہاب احمد
۱۱ جنوری ۲۰۲۱

0
112