غزل |
بے ہنر لوگ بھی با ہنر ہو گئے |
ہم گرے پھر نہ سنبھلے صفر ہو گئے |
بھیک لیتے رہے ہم خودی کے عوض |
آج غیروں کے دستِ نگر ہو گئے |
بے خَطر جِن پہ کھیلے لڑکپن میں ہم |
اب وُہی راستے پُر خَطر ہو گئے |
خاک دھرتی پہ امن و اماں ہو مری |
چور، ڈاکو جہاں مقتدر ہو گئے |
جو نگاہوں میں رکھتے تھے پل پل ہمیں |
کیسے حالات سے بے خبر ہو گئے |
اوّل اوّل تو لکھتے تھے تفصیل سے |
ان کے پیغام پھر مختصر ہو گئے |
دِل نے پالے جو ارماں بڑے ناز سے |
بڑھتے بڑھتے وہ داغِ جگر ہو گئے |
چند سِکے کمانے کو گھر سے چلے |
پھر ہوا یوں کہ ہم در بہ در ہوگئے |
آبلے پک کے پاؤں میں جب پھٹ پڑے |
ہنس کے پتھر مرے ہم سفر ہو گئے |
آبِ دیدہ سے جب آبیاری ہوئی |
بے ثمر پیڑ بھی با ثمر ہو گئے |
باغباں کی کمر تو کماں ہوگئی |
خستہ جاں ننھے پودے شجر ہو گئے |
اِک سبق ہم نے سیکھا ہے تاریخ سے |
کٹ گئے جو وفا میں اَمر ہو گئے |
چل شہاب اپنی دانش وری پاس رکھ |
شعر دو لکھ کے تم معتبر ہو گئے |
شہاب احمد |
۲۳ نومبر ۲۰۲۲ |
معلومات