غزل
پھول سے لب کھلے، آنکھ شرما گئی
خوبصورت ادأ دل کو گرما گئی
خوب اکھیوں سے کی بیت بازی مگر
لفظ ہونٹوں پہ لانے سے کترا گئی
کھینچ کر بندِِ گیسو سے اِک تار کو
شوخ میرے شبستاں کو مہکا گئی
پھرتیاں دیکھئے اس سیہ کار کی
زُلف لہرا کے عارض کو سہلا گئی
صحنِ دل میں تری ایسے آمد ہوئی
جوں خراماں خراماں صبا آ گئی
بزم میں اتفاقاّ ہُوا سامنا
شوخ مشتاق نظروں سے گھبرا گئی
ناز،نخرہ، شہاب اور ناراضگی
آتشِ شوق کو اور بھڑکا گئی
شہاب احمد
۲۵ نومبر ۲۰۲۵

0
19