غزل
نہ غمی کا کوئی بھروسہ ہے
نہ خوشی کا کوئی بھروسہ ہے
اک تغیر ہے دائمی ہر پل
عارضی کا کوئی بھروسہ ہے
چودھویں شب حسین ہے لیکن
چاندنی کا کوئی بھروسہ ہے
سَب نظر کا فریب ہے صاحب
دلکشی کا کوئی بھروسہ ہے
ٹمٹماتا ہوا دیا گویا
زندگی کا کوئی بھروسہ ہے
آج ہم سے ہے کل کسی سے ہو
دوستی کا کوئی بھروسہ ہے
قول دے کر وہ کل مکر جائے
آدمی کا کوئی بھروسہ ہے
ایک شوریدہ سر کی منطق ہے
عاشقی کا کوئی بھروسہ ہے
رب کی رحمت پہ تُو بھروسہ رکھ
بندگی کا کوئی بھروسہ ہے
بے سبب دل میں گھاڑ دے پنجے
بے کلی کا کوئی بھروسہ ہے
جانے کب ہو نئی غزل وارد
شاعری کا کوئی بھروسہ ہے
بلبلہ ہے شہاب یوں سمجھو
زندگی کا کوئی بھروسہ ہے
شہاب احمد
۵ مئی ۲۰۲۵

21