| غزل |
| مہکا مہکا ترا گلزارِ بدن یاد آیا |
| ہنستا ہنستا ترا اندازِ سخن یاد آیا |
| لب و رخسار کے گل اور مہکتے گیسو |
| شام آئی تو وہی رشکِ چمن یاد آیا |
| رکھ لیا غنچۂ گل توڑ کے رخساروں پر |
| ہجر کی رات بہت غنچہ دہن یاد آیا |
| دیکھ کر آپ کے قدموں کی روانی اکثر |
| رقص کرتی ہوئی ندیا کا چلن یاد آیا |
| وسوسے چین کی کروٹ نہیں بیٹھے دن بھر |
| صبح ماتھے پہ تھی ہلکی سی شکن یاد آیا |
| شام کچھ ایسے شفق دور افق پر پھیلی |
| جیسے تنہائی میں سجنی کو سجن یاد آیا |
| اب تو رستوں سے ہمیں ہو گئی الفت پیارے |
| کبھی منزل کی بھی ہوتی تھی لگن یاد آیا |
| ایک لمحے کو مسافت سے نہیں ہے فرصت |
| بیٹھے بیٹھے کبھی ہوتی تھی تھکن یاد آیا |
| شعر کہتا تھا شہاب آج کسی محفل میں |
| خوب انداز ہے ناصر کا سخن یاد آیا |
| شہاب احمد |
| ۲۸ جولائی ۲۰۱۹ |
معلومات