غزل |
چھپی ہے دل میں ہزار لالچ، یونہی میں تم پر فدا نہیں ہوں |
میں ایک بندہ ہوں بندہ پرور ، خدا نہ سمجھو خدا نہیں ہوں |
مرے رفیقوں نے جوڑ رکھے ہیں بے وفائی کے سو فسانے |
مرے رقیبوں سے پوچھ لو تم حقیقتاّ میں برا نہیں ہوں |
اگر کبھی تم منانے آتے، مرے لبوں سے یہی تو سنتے |
ہزار شکوے شکایتیں ہیں مگر میں سچ مچ خفا نہیں ہوں |
تمام رشتے، سبھی تعلق ، ہمیشہ خونِ جگر سے سینچے |
ہزار نَو کی خرابیاں ہیں، مگر غریبِ وفا نہیں ہوں |
عمل پہ اپنے نہیں بھروسہ ترے کرم پر یقیں بہت ہے |
سکوں ہے دل مطمئن ہے میرا،اگرچہ میں پارسا نہیں ہوں |
عجب تعلق ہے بندگی کا جو عاجزی کو وقار بخشے |
مِرا خدا تو مِرے سِوا ہے مگر میں اُس کے سِوا نہیں ہوں |
ہزار آندھی شہاب آئے ہرا شجر ہوں جما رہوں گا |
جڑُا ہوا ہوں زمیں سے اپنی ، جڑوں سے اپنی جدا نہیں ہوں |
شہاب احمد |
۸ اگست ۲۰۲۱ |
معلومات