غزل
اوّل اوّل پیار میں وہ ہچکچانا یاد ہے
رفتہ رفتہ قربتوں کے لطف پانا یاد ہے
لمس کی لذت سے مجھ کو آشنا کرنا ترا
وہ یکایک ہاتھ چھو کر بھاگ جانا یاد ہے
پہلے لکھنا پیار کے نغمے، محبت کے خطوط
پھر ترے کوچے میں سو سو بار جانا یاد ہے
بھیگی زَلفیں کھول کر کرنا معطر دن مرے
دھوپ میں چھت پر ترا گیسو سکھانا یاد ہے
گوند کر زلفوں کی چٹیا خوب دینا بل اسے
سانپ کہہ کر پھر مجھے اس سے ڈرانا یاد ہے
شوخ آنچل سے ترا میمیز کر دینا ہوا
وہ فضاؤں میں ترا خوشبو اُڑانا یاد ہے
اک محبت اور توجہ کی نظر کے شوق میں
دیدہ دانستہ تمھارا چوٹ کھانا یاد ہے
وہ مرا بھنورے کے جیسا چار سو پھرنا ترے
پھر ترے شیریں لبوں کے رس چرانا یاد ہے
رفتہ رفتہ عشق میں بیباک ہو جانے کے دن
فون پر گھنٹوں مسلسل چہچہانا یاد ہے
وہ تری دلداریاں وہ شوخیاں سب یاد ہیں
جب منا لینا مجھے تو روٹھ جانا یاد ہے
سردیوں کی شام میں پہلے ٹھٹھرنا خوب پھر
ایک کمبل میں سمٹ کر بیٹھ جانا یاد ہے
چھوڑنا تازہ شگوفے جب کبھی مل بیٹھنا
وہ ترا ہنس ہنس کے بھی مجھ کو ہنسانا یاد ہے
عارضی آئے مگر آئے جدائی کے بھی دن
پہروں تیری یاد میں وہ تلملانا یاد ہے
پرتکلف دوستی سے بے تکلف عشق تک
لمحہ لمحہ داستاں کا ہر فسانہ یاد ہے
یاد ہے مجھ کو شہاب احمد وہ چاہت کا سفر
داغ و حسرت ، میر و غالب گنگنانا یاد ہے
شہاب احمد
۸ فروری ۲۰۱۹

0
1
71
جلیل قدر شاعر حسرت موہانی کیلئے میرا خراجِ تحسین ۔

0