غزل |
حسیں رُخسار پہ رُخسار ٹیکوں اور سُو جاؤں |
تِرے مخمل بدن سے تن لپیٹوں اور سُو جاؤں |
دہکتی آگ سے شعلے لپکتا ہے بَدن تیرا |
چَلو آوٴ ذرا کچھ ہونٹ داغوں اور سُو جاؤں |
تِری قربت سبھی آزار جیون کے بھلا ڈالے |
مہکتی سانس سے خُوشبو چُراؤں اور سُو جاؤں |
تھکاوٹ چاہے جتنی ہو تو راحت سے بدل ڈالے |
حلاوت سرخ ہونٹوں سے کشیدوں اور سُو جاؤں |
سراپا لطف ہیں جاناں تمھارے دست و پا مجھکو |
ذرا پیروں سے تیرے پیر جوڑوں اور سُو جاؤں |
رفاقت ہو کہ فرقت ہو تمھارے لطف کیا کہنے |
جدائی میں تِرے سپنے سجاؤں اور سُو جاؤں |
تِری چاہت مری رَاحت کا ساماں ہو گئی جاناں |
ذرا اِک پل ترے پہلو میں لیٹوں اور سُو جاؤں |
کبھی غمگین لمحے جب مرے جیون میں دَر آئیں |
تِرے آنچل سے گرتے اشک پونچھوں اور سُو جاؤں |
مِرے گیتوں کی ساری نغمگی تیرے سُروں سے ہے |
اِدھر بیٹھو سُریلے تار چھیڑوں اور سُو جاؤں |
مجسم اِک غزل ٹہلے مِرے آنگن شہاب احمد |
پڑھوں جب جب اُسے اَشعار بولوں اور سُو جاؤں |
شہاب احمد |
۲۶ ستمبر ۲۰۱۲ |
معلومات