غزل
حسیں رُخسار پہ رُخسار ٹیکوں اور سو جاؤں
تِرے مخمل بدن سے تن لپیٹوں اور سو جاؤں
دہکتی آگ سے شعلے لپکتا ہے بدن تیرا
چَلو آوٴ ذرا کچھ ہونٹ داغوں اور سو جاؤں
تِری قربت سبھی آزار جیون کے بھلا ڈالے
مہکتی سانس سے خُوشبو چُراؤں اور سو جاؤں
تھکاوٹ چاہے جتنی ہو تو راحت سے بدل ڈالے
حلاوت نرم ہونٹوں سے کشیدوں اور سو جاؤں
سراپا لطف ہیں جاناں تمھارے دست و پا مجھکو
ذرا پیروں سے تیرے پیر جوڑوں اور سو جاؤں
رفاقت ہو کہ فرقت ہو تمھارے لطف کیا کہنے
جدائی میں تِرے سپنے سجاؤں اور سو جاؤں
تِری چاہت مری راحت کا ساماں ہو گئی جاناں
ذرا اک پل ترے پہلو میں لیٹوں اور سو جاؤں
کبھی غمگین لمحے جب مرے جیون میں در آئیں
تِرے آنچل سے گرتے اشک پونچھوں اور سو جاؤں
مِرے گیتوں کی ساری نغمگی تیرے سروں سے ہے
قریب آؤ سریلے تار چھیڑوں اور سو جاؤں
مجسم اِک غزل ہے وہ مِرے آنگن شہاب احمد
پڑھوں جب جب اُسے اَشعار بولوں اور سو جاؤں
شہاب احمد
۲۶ ستمبر ۲۰۱۶

0
111