غزل
آپ ہنستی ہیں تو شہکار غزل ہوتی ہے
ورنہ، پژمردہ و بیکار غزل ہوتی ہے
ناز اتنے ہیں اکیلے نہیں اُٹھتے اُن سے
ساتھ اِک حاشیہ بردار غزل ہوتی ہے
گرچہ ہر صنفِ سخن رشکِ ہنر ہے لیکن
دل پہ الہام مرے یار غزل ہوتی ہے
چاشنی سرخ لبوں کی ہے زباں پر میری
شہد کی طرح مزے دار غزل ہوتی ہے
نظم ہر نوع کی زینت ہے مری اردو کی
حُسنِ مالا، دُرِ شہ وار غزل ہوتی ہے
ساتھ ملکر یہ چہکتی ہے مری خوشیوں میں
اور جب غم ہو تو غمخوار غزل ہوتی ہے
بیٹھ جاتی ہے شبِ غم یہ سرہانے آ کر
روشنی بن کے نمودار غزل ہوتی ہے
جب کبھی سانس گھٹے اور بڑھے مایوسی
یک بہ یک روزنِ دیوار غزل ہوتی ہے
شعر کہتے ہو شہاب آپ ہمیشہ سُچے
خوب رومان سے سرشار غزل ہوتی ہے
شہاب احمد
۸ جون ۲۰۲۴

70