غزل |
مصاحب غیر کا بنتا ہے کیوں بیکار جانے دے |
نہ اپنی قوم سے ہو بر سرِ پیکار جانے دے |
سپاہی کو نہیں زیبا کرے وہ غیر سے سازش |
سہولت سے تُو بن جائے سہولت کار جانے دے |
لبادہ اوڑھ لو کوئی برہنہ دِکھ رہے ہو تم |
حقیقت کُھل چکی ساری سرِ بازار جانے دے |
معیشت کو ڈبو ڈالا تمھاری اس سیاست نے |
غریبوں کیلئے ہر سانس ہے دشوار جانے دے |
تمھاری جاہ و حشمت بھی نہ بہہ جائے بغاوت میں |
لکھا ہے صاف لفظوں میں سرِ دیوار جانے دے |
محرم کی روایت پھر سے تازہ ہو نہیں جائے |
حسینی قافلے کو تُو نہیں للکار جانے دے |
تری بندوق کا رخ تھا ہمیشہ قوم کی جانب |
بہادر ہے تو کر کشمیر میں یلغار جانے دے |
ہماری قوم کے درپے ہے پھر فرعون کا لشکر |
عصا تُو ڈال دریا میں ہمیں اُس پار جانے دے |
ورق خود ہی تو پھاڑا تھا کبھی تم نے شہاب احمد |
کہانی میں نہیں شامل ترا کردار جانے دے |
شہاب احمد |
۹ اگست ۲۰۲۲ |
معلومات