غزل |
ساتھی ہو تو من کو سب کچھ اچھا اچھا لگتا ہے |
ورنہ ہنستا بستا آنگن سونا سونا لگتا ہے |
تیرا پیکر تازہ تازہ پھولوں کا گل دستہ ہے |
چھو لوں جس پل اپنا تن من مہکا مہکا لگتا ہے |
چاندی جیسا تیرا پیکر کپڑوں میں رَچ جاتا ہے |
تُم جو پیراہن بھی پہنو اجلا اجلا لگتا ہے |
ہنستا ہنستا کھلتا چہرہ اکھیاں ٹھنڈی رکھتا ہے |
تیرے آگے سجنی چندا میلا میلا لگتا ہے |
چوسا سو سو پھولوں کا رس، شہد کشیدہ مکھیوں نے |
میٹھے ہونٹوں کا رس پی کر پھیکا پھیکا لگتا ہے |
جیسے جیسے ہنستی ہو تم پھول لبوں کے کھلتے ہیں |
کجراری آنکھوں میں کاجل نکھرا نکھرا لگتا ہے |
رنج بھی راحت پہنچاتے ہیں چاہت ہو گر سینے میں |
اب تو تنہائی کا دکھ بھی میٹھا میٹھا لگتا ہے |
جانے کتنے طوفاں اس کے اندر اندر برپا ہیں |
گرچہ اوپر سے یہ دریا ٹھرا ٹھرا لگتا ہے |
لڑکوں لونڈوں جیسی غزلیں شوخ شہاب احمد لکھے |
چہرے مہرے سے تو خاصا سلجھا سلجھا لگتا ہے |
شہاب احمد |
۴ جون ۲۰۱۷ |
معلومات