| غزل |
| محسوس کی ہے پیار کی حدت کبھی کبھی |
| نکلی ہے میرے دل کی بھی حسرت کبھی کبھی |
| جس جا وفا ملے اسے بڑھ کر سمیٹ لیں |
| ملتی ہے زندگی میں یہ دولت کبھی کبھی |
| ہم کو وہ التفات سے دیکھیں مگر کہاں |
| دیتے ہیں آئینے انہیں فرصت کبھی کبھی |
| گرچہ وہ شوخ رنگ جوانی نہیں رہی |
| سج دھج کے اب بھی ڈھائیں قیامت کبھی کبھی |
| اس کا غرور میری وفا کے طفیل تھا |
| سر چڑھ کے بولتی ہے محبت کبھی کبھی |
| کس کس ادا سے آپ ہمیں آزمائیں گے |
| آتی نہیں سمجھ ہمیں حکمت کبھی کبھی |
| چیونٹی سا ایک شخص مزاجاْ پہاڑ تھا |
| ہمت کو لازمی نہیں قامت کبھی کبھی |
| انسان اپنے آپ سے بھی ہم کلام ہو |
| اتنی تو ملنا چاہئے فرصت کبھی کبھی |
| آتے رہا کریں مِرا آنگن اجالنے |
| دِکھتی ہے بیٹا چاند سی صورت کبھی کبھی |
| جب سوچتا ہوں اپنے وطن کے سماج کا |
| ہوتی ہے اِن حالات سے وحشت کبھی کبھی |
| ڈر ہے خدا پرست نہ ہو جاؤں ایک دِن |
| آتی رہی جو یونہی قیامت کبھی کبھی |
| اللَٰہ شہاب میرے گنہ در گزر کرے |
| بندہ بشر ہوں ہوتی ہے غفلت کبھی کبھی |
| شہاب احمد |
| ۹ جنوری ۲۰۱۸ |
معلومات