غزل |
دست و بازو پہ سجی شوخ حنا یاد رہی |
کھل کھلا کر ترے ہنسنے کی ادا یاد رہی |
بھول کر ہجر کے صدمے وہ اکیلی راتیں |
ہنستی آنکھوں میں چمکتی وہ حیا یاد رہی |
تلخ ماضی کے حوادث کو فراموش کیا |
دَوست، دُشمن رہیں آباد دُعا یاد رہی |
وقت نے یاد کے سب نقش مٹائے لیکن |
کوۓ جاناں کی مہکتی وہ ہوا یاد رہی |
خود فراموش ہیں احسان فراموش نہیں |
محسنوں کی ہمیں اک ایک عطا یاد رہی |
جیسے اغیار کے اخلاص و وفا یاد رہے |
عین ُاس طرح سے اپنوں کی ریا یاد رہی |
بھول جاتا ہوں بھلکڑ ہوں شہاب احمد میں |
بھول جانا تھی جو اک بات سدا یاد رہی |
شہاب احمد |
۱ جون ۲۰۲۲ |
معلومات