غزل |
مشتاق نظروں کو حسیں لب سے پذیرائی ملی |
جوشِ حیا سے حُسن کو صَد رَنگ رَعنائی ملی |
اس نے قیامت کی مرے دل پر گرائیں بجلیاں |
جس روز اس نُو عمر کے جوبن کو انگڑائی ملی |
تقسیم کی ہیں نعمتیں کس بے نیازی سے ستم |
ان کو نوازا حسن سے، ہم کو شکیبائی ملی |
صحرا بہ صحرا ڈھونڈتا پھرتا ہے مجنوں بے سبب |
ہم کو ہجومِ شہر میں غم بستہ تنہائی ملی |
آغوش میں میری وہ جنت ڈھونڈتا پھر آئے گا |
جِس دِن مرے اُس نازشِ نرگس کو بینائی ملی |
غم بستگی میں تم شہاب احمد لکھو اچھی غزل |
نوکِ قلم کو خون سے گویا کہ زیبائی ملی |
شہاب احمد |
۱۱ فروری ۲۰۲۵ |
معلومات