Circle Image

Arshid Abdullah

@Eshyar

ایک ہی اچھا کِیا دنیا تو نے کام
نام سے میرے ہے جوڑا اسکا جو نام
درد ہوتا ہے مجھے بھی کہ ہوں انسان
عشق میں لوٹ آیا ہوں ہو کر میں ناکام
تھام کے ہم نے رکھا ہے دامنِ عشق
دیکھ لیں گے ہم بھی اب جو بھی ہو انجام

0
1
مقابل رہو تم نظر تو ملاؤ
جو دل میں ہے آنکھوں سے مجھ کو سناؤ
ہزاروں سوالات اُمَڈتے رہے ہیں
دلِ بے صَبَر کو نہ تم آزماؤ
شکستہ میں ہو کر ترے در پہ آیا
سوالی میں سائل مجھے نا اٹھاؤ

0
6
شبِ قربت میں فرقت ہے
عجب شے بھی محبت ہے
شمع تو ہے میں پروانا
کہوں کیا میری حسرت ہے
مرا دل ہے مریضِ عشق
جسے جلنے کی حسرت ہے

0
11
نگاہوں نے سب کچھ سکوتاً جلایا
محبت نے ہر رنگ اپنا گنوایا
سدا زیر کرتی مجھے حسرتوں سے
رہائی ملی تو تمنا نے مارا
نہ پایا سکوں میں نے خواہش کے رستے
نہ صبر آزمایا، نہ دل کو سنبھالا

0
8
عجب ہے حال دنیا کا عجب حالت مری کی ہے
بڑی مشکل سے جی ہے زندگی میں نے جو بھی جی ہے
کبھی غربت کبھی دنیا کے طعنوں نے ستایا ہے
غریبی اور رسوائی یہی میری کمائی ہے
جہانِ فانی میں باقی رہے گا کیا بتا مجھ کو
تو بھی فانی ہے تو گھبراتا ہے کیوں جان جانی ہے

0
9
کرو تم فکر اپنی میرا کیا ہے میں تو اچھا ہوں
جہانِ عشق میں روحِ پریشاں ہوں میں تنہا ہوں
مرے سینے میں اس دردِ مسلسل کی وجہ تو ہے
دلِ برباد سنبھالے میں کیوں پھر تجھ کو رکھتا ہوں
ہزاروں درد لب پر ہیں سجاۓ نغموں کی صورت
طلسمی لفظ ہے یہ صبر، دہراتا میں رہتا ہوں

0
30
جب اِلتفاتِ خلق ہی آزار بن جائے کہیں
جب مہربانی بن کے دل پر وار بن جائے کہیں
جب خامشی بھی گفتگو کے بدلے بہتر ہو کبھی
جب وصل کی خواہش بھی سوگوار بن جائے کہیں
جب تنہائیاں خود تجھے ہم راز جیسی لگنے لگیں
جب آئنے میں دیکھ کر خود کو کوئی سمجھے نہ تُو

0
13
گفتگو بھی مر گئی ہے، بحث بھی ہے خاک میں
اب فقط آواز باقی، اور وہ بھی بے مدعا
کوئی سنتا ہی نہیں ہے، بس زبانیں ہیں رواں
کون کس کو کیا بتائے، گم ہوا ہر مدعا
اک زمانہ تھا کبھی جب بات میں کچھ بات تھی
اب جو کچھ ہے بے سبب ہے اور سب کچھ بے وجہ

0
8
ہر روز اک فکر ستاتی ہے مجھ کو
ہر روز اک فکر سے بھاگتا ہوں میں
میں بالکل ٹھیک نہیں کہوں کیسے
ہوں بالکل ٹھیک یہ کہَّتا ہوں میں
میرے اندر ہی ہے معرکہ برپا
خود کو ہی ہارتا دیکھتا ہوں میں

0
25
شور و غل ہے شہر میں آج عید ہے
جشن کا بس ہے سماں آج عید ہے
عید ہے ہاں عید ہے امید ہے
کھلکھلاتے بچوں کی آج عید ہے
صبر کی اخلاص کی تاکید ہے
سنتِ ابراھیم ہے آج عید ہے

0
14
غنچے کھلکھلاتے ہیں جب وہ مسکراتے ہیں
ان کے اک تبسم سے گُل شباب پاتے ہیں
رشک ان پہ کرتا ہے گل گلاب کا دیکھو
پھول سارے گلشن کے ان سے زیب پاتے ہیں
بلبلوں کے نالوں کو جیسے ساز ملتا ہے
لب پہ ان کے ہو جنبش بھنورے گیت گاتے ہیں

0
25
وہ پرسانِ حال ہوا ہے ؟ اگر ہوا ہے تو بتلا دو
اس سے کہہ دو اس کے خط وہیں رکھے ہیں جا کر جلا دو
اب کیوں آۓ جاتا ہے وہ قریب میرے؟ دور ہی رہے
میں نے کب اُس سے ایسا کہا ہے،محبتوں کا صلہ دو
مجھ سے وہ دوریاں ہی بناۓ رکھے گا تو بہتر ہے
انجامِ قربت معلوم ہے،کیوں بجھے شعلوں کو ہوا دو

0
15
مانَندِ عروضی مجھ کو وہ ٹکڑوں میں بانٹتا ہے
کوئی شعر وہ سمجھ کر ترتیب دے رہا ہے
دیکھے حرکت ہر حرف کی دیکھے سکون بھی وہ
آہنگ بنا بنا کے وہ اوزان جانچتا ہے
وہ بے وزن پاۓ یکسر موزوں کلام ہو پھر بھی
ارکان بھی خود ہی دے کے ہر رکن تولتا ہے

0
28
تمہیں علم و عرفاں کی وسعت ملے
تمہیں عارفوں کی ہی صحبت ملے
کبھی غم ترے دل پہ دستک نہ دے
کبھی آنکھ نم بھی دکھائی نہ دے
کرو بات تم تو کرو وہ سہی
قلم سے لکھو تو ہو حرفِ سہی

0
34
اپنی حالت ایسی ہے ہم ہنستے ہیں نا روتے ہیں
کہتے کچھ بھی ہم نہیں خود ہی سے ہم بس لڑتے ہیں
گھر میں میرے گھر سی کوئی بات بالکل بھی نہیں
گھر سے بہتر اچھا ہے ویرانے کو ہم جاتے ہیں
کوئی منظر اب لبھاتا ہی نہیں ہم کیا کریں
اپنے زخموں کو جو رستا دیکھیں تو ہم ہنستے ہیں

0
33
رہی نا مکمل ہی اپنی کہانی
گئی ہاتھ سے یوں ہی اپنی جوانی
چلو میں بھی سجدے میں جا کر کے دیکھوں
خدا سےہے تیری شکایت لگانی
کوئی چارہ سازوں کو لے کر کے آۓ
رفاقت انہیں بھی ہے مجھ سے نبھانی

0
23
قسمت کو یہاں اپنی کس نے ہی ہرایا ہے
مرضی سے نہیں آیا جو بھی یہاں آیا ہے
ہاں عشق ہی اول ہے ہاں عشق ہی آخر ہے
اس عشق کے صدقے ہی دنیا کو بسایا ہے
گردش میں ہیں ہر دم دیکھو چاند ستارے بھی
برسوں سے محبت کو اس طرح نبھایا ہے

0
18
نظم: “خدا میرے”
خدا میرے!
میری آنکھوں کو کر دے پتھر،
کہ اب کوئی منظر دکھائی نہ دے،
یہ دنیا، یہ چہرے، یہ بوسیدہ لمحے،
یہ سب بے معنی، یہ سب بے اثر۔

0
43
اس طرح درد سے میرے ان کو آشنا کر
یا رب وہ مسکرائیں اپنا ہی گھر جلا کر
تنہا وہ اس طرح سے میری طرح پڑا ہو
وہ زار زار روۓ خود کو گلے لگا کر
دل روۓ اور اس کے نالہ نہ ہو لبوں پر
وہ زخم اپنے دھوۓ اپنا لہو بہا کر

0
48
مجھے تم سے بےجا شِکایت نہیں ہے
تری اے مسیحا عنایت نہیں ہے
وفا کیجۓ گر اُٹھایا الم یہ
محبت ہے صاحب سیاست نہیں ہے
وفا کا صلہ ہم وفا مانتے ہیں
ترے ہاں مگر یہ روایت نہیں ہے

0
56
پھر تجھ سے کوئی بات ہو پھر کوئی بہانہ بنے
پھر باتیں کریں لوگ پھر سے کوئی فسانہ بنے
پھر مجروح تو دل کرے میرا اک نیا زخم دے
پھر اک بار میرا جگر تیرا ہی نشانہ بنے
پھر سے دوست بن کے مجھے بے یار و مدد گار کر
پھر میرا تماشہ بنے پھر سے تو یگانہ بنے

74
گزر گئی یہ شب بھی بیداری میں
ترے خیالوں ہی کی سرشاری میں
گراں بہا ہے تنہائی کہ مجھ کو
ہے لطف آتا مردم بےزاری میں
مجھے شکایت کرنی آتی کب ہے
سو بیتے ہر لمحہ آہ و زاری میں

0
45
میں غریب ہوں یہ بھی سچ ہے گھر میں بھی چولہا
کم مرے جلتا ہے
لہو بیچ آؤں میں تب کبھی کہیں جا کے گھر مرا چلتا ہے
مری مفلسی مرا جرم ہے تو بجا ہے مجھ کو سزا ملے
کہ خزاں میں دیکھ لو گر کے پتّا بھی اپنا رنگ بدلتا ہے
سنو ایک بات تو کہنی ہے مگر تم سے سچ ہے جو با خدا

0
3
77
اب مری آنکھ کو بھی خواب نہیں
وہ حقیقت ہے گر سراب نہیں
جو شکایت ہے میرے منہ پہ کہو
بے رخی تو کوئی جواب نہیں
کمسنی میں خطا معاف سہی
گل پہ آ یا ابھی شباب نہیں

109
باقی نہ کچھ رہا راکھ کرے تپتا صحرا
جو چلے لُو ہے مٹاۓ مرے ہے نقشِ پا
خانہ بدوش ہوں در سفرِ صحرا ہوں میں
میرا نہ گھر کوئی ہے نا ٹھکانا ہے میرا
ایک سراب فقط ہوا حاصل یاں مجھ کو
ریگِ رواں مجھے اب ہے نظر آۓ دریا

0
46
زخم میرا ہرا ہو بھی جاۓ تو کیا
درد میری دوا ہو بھی جاۓ تو کیا
دل پگھلنا نہیں بات بننی نہیں
اس سے اب سامنا ہو بھی جا ۓ تو کیا
تو نے چھوڈا جہاں وہ وہاں اب نہیں
سامنے وہ کھڈا ہوبھی جاۓ تو کیا

0
33
رشتے ناطے بندھن قطع یہ کرتے ہیں
وقتِ حاجت اپنے چھوڈ ہی جاتے ہیں
کہتے ہیں مجنوں پتھر بھی مجھے ماریں
دیوانے ہیں دیوانا مجھے کہتے ہیں
گفتارِ شیریں تیرے یہ طلسمِ لب
دل پر میرے یہ ظالم گراں آتے ہیں

0
63
الِف یہ قد ترا کیا ہے تری گَڑھائی کیا کہۓ
سَراپا خطِ نستعلیق میں لکھائی کیا کہۓ
کہے رقیب جو ہے میری غمگساری کی تم سے
نظر مجھے کفِ قاتل میں کلی آئی کیا کہۓ
ترے لبوں سے برساتیں جو برسیں پھولوں کی ہمدم
مرے چمن میں ایسے ہے بہار آئی کیا کہۓ

0
79
ہے لگی آگ سینے میں میرے
ہاۓ ارمان جلتے ہیں میرے
یہ نہ ہو تم بھی راکھ ہو جاؤ
ہے نہیں آگ قابو میں میرے
یوں تو میں بھول ہی چکا سب کو
ہر گھڑی تم ہو دھیان میں میرے

0
43
شامِ غم تو بھی کیا گزر جاۓ گی
میرے پہلُو سے جا کدھر جاۓ گی
تجھ سے خوگر کہ مٹ ہی جاؤں گا میں
تو جا گر چیر کر جگر جاۓ گی
تو نے عہدِ وفا ،وفا ہی نا کیا
میں سمجھا تھا یہیں ٹھہر جاۓ گی

0
51
اس کی فرقت میں خدا جانے میں کیا کر تا تھا
بے خودی شعر پڑھاتی تھی غزل کہتا تھا
ہمسفر جس کو سمجھتا تھا یقیں تھا جس پر
دل پہ تھی اس کی حکومت وہ یہیں رہتا تھا
وہ مقابل ہے تو بت سا یوں کھڑا کیوں ہوں میں
دیکھتے ہی اسے ان آنکھوں کو بھر آنا تھا

0
155
تو سدا ہی ہے مرے روبرو
بے صدا رہے سدا گفتگو
تو کرم تو کر مرے حال پر
تری دید ہو ہے یہ آرزو
تو خیال ہے تو مرا بھرم
پھروں ڈھونڈتا تجھے کو بہ کو

0
125
اے مسافر دشت ہو چاہے ہو کوئ صحرا
کوئ گھر جیسی شے مل جاۓ تو خبر کرنا
جسے اپنا کہہ سکو تم ایسا کوئ اپنا
دلِ مخلص ہی کہیں مل جاۓ تو خبر کرنا
ہے جہاں میں چار سُو کثرت آدمی کی لیکن
کوئ انسان سا مل جاۓ تو خبر کرنا

0
72