الِف یہ قد ترا کیا ہے تری گَڑھائی کیا کہۓ
سَراپا خطِ نستعلیق میں لکھائی کیا کہۓ
کہے رقیب جو ہے میری غمگساری کی تم سے
نظر مجھے کفِ قاتل میں کلی آئی کیا کہۓ
ترے لبوں سے برساتیں جو برسیں پھولوں کی ہمدم
مرے چمن میں ایسے ہے بہار آئی کیا کہۓ
لکھوں تجھے قلم کا میری زور نا بنا اتنا
کبھی غزل لگے ہے تو کبھی رباعی کیا کہۓ
حجاب کا بہانا ہے عجب یہ پارسائی ہے
کسے یہ سوجھی کس نے رَسم یہ بنائی کیا کہۓ
شناس ہیں وہ بھی عشؔیار ان کو ہے خبر تیری
فسانہ دل کا آنکھوں میں دے جو دکھائی کیا کہۓ

0
48