| میں ہوش کی بستیوں کو ترک کر چکا ہوں |
| دلِ آشفتہ کو خود، دستِ خنجر سپرد کر چکا ہوں |
| اب ہر نطق، ہر خیال، زہراب سا محسوس ہوتا ہے |
| میری ہی موجودگی مجھ پر ایک معما سی بن چکی ہے |
| اے صاحبِ عرش! میری نادانیوں پر چشمِ عنایت فرما |
| میرے باطن کے شعلوں کو مزید زبوں نہ فرما |
| میری ساعتیں اب لبِ در ہیں فنا کے |
| اور تمہاری رہائی بھی متوقّع ہے کسی پل کی صدا کے |
| بس ایک لمحہ ٹھہرو… یہ منظر مکمل ہو لینے دو |
| مجھے کفن کی سفیدی میں لپیٹ کر، خامشی سے لے جانے دو |
| پھر نہ کوئی ندا اُٹھے گی، نہ کوئی حرف دہراتا دکھے گا |
| کہ میری ذات ہی کچھ اور سی، کچھ اجنبی سی تھی |
| میں فقط لمحاتی مسافر، اک گزرگاہ کا سایہ |
| اداسی کیسا، جب معلوم ہو کہ ہم خود ایک فسانہ تھے؟ |
| نہ میں سخنور تھا، نہ کوئی صاحبِ ہنر |
| محض اخلاص کی بنیاد پر ہاتھ بڑھایا تھا کبھی |
| کیا معلوم تھا وہی دست، گریبان پر آن ٹھہرے گا؟ |
| اب جو ہے، وہی ہے—جبر کا بھی علاج نہیں |
| یہ شبِ تیرہ سہی، سحر کی امید کا بھی کیا ثبوت ہے؟ |
| سحر تو آ ہی جائے گی، مگر ہم نہ ہوں گے |
| اور جب ہم نہ ہوں گے، تم بھی بےغم ہو گے |
| میرے وجود سے اگر اذیت تمہیں پہنچی ہے |
| تو سنو، میں ہی محتاج ہوں، اور تم محسنِ بے رعایت |
| خدا کرے کہ اب میری کوئی سحر نہ جاگے |
| اور میرا ہونا کسی کے لیے زہر نہ بنے |
معلومات