| میں غریب ہوں یہ بھی سچ ہے گھر میں بھی چولہا |
| کم مرے جلتا ہے |
| لہو بیچ آؤں میں تب کبھی کہیں جا کے گھر مرا چلتا ہے |
| مری مفلسی مرا جرم ہے تو بجا ہے مجھ کو سزا ملے |
| کہ خزاں میں دیکھ لو گر کے پتّا بھی اپنا رنگ بدلتا ہے |
| سنو ایک بات تو کہنی ہے مگر تم سے سچ ہے جو با خدا |
| مجھے یاد تم بہت آتے ہو جوں ہی دن یہ شام میں ڈھلتا ہے |
| کوئی دیکھ لے مرے گھر کی چھت جو بکھر گئی وہ حسین ہے |
| جلیں لوگ جس کی تمنا میں یہیں سے وہ چاند نکلتا ہے |
| کوئی نغمہ جیسے سناتی ہے کوئی گیت جیسے یہ گاتی ہے |
| یہ ندی جو شور مچاتی ہے تو کہیں مرا جی بہلتا ہے |
| میں نے روشنی کے لۓ دیا بھی جلاۓ رکھا ہے اور پھر |
| کسی دن جو تم چلے آتے ہو یہاں نور ماہ نکلتا ہے |
معلومات