| گفتگو بھی مر گئی ہے، بحث بھی ہے خاک میں |
| اب فقط آواز باقی، اور وہ بھی بے مدعا |
| کوئی سنتا ہی نہیں ہے، بس زبانیں ہیں رواں |
| کون کس کو کیا بتائے، گم ہوا ہر مدعا |
| اک زمانہ تھا کبھی جب بات میں کچھ بات تھی |
| اب جو کچھ ہے بے سبب ہے اور سب کچھ بے وجہ |
| کوئی کہتا گر تو شاید، کوئی سنتا بھی کبھی |
| ہم نے جو کچھ بھی کہا تھا، وہ کہا بس خواہ مخواہ |
| کون سمجھے درد کو اب، کون چاہت کو پڑھے |
| کون اب پرکھے کسی کا ظرف یا دل کی صدا؟ |
| قہقہوں میں ڈوبتے ہیں آج سچے جذبے بھی |
| بس مذاقوں میں اڑا دی ہر صدا، ہر التجا |
| صبر رخصت ہو گیا ہے، اور گیا اخلاص بھی |
| زخم دیتی گفتگو ہے، زہر ہے ہر ناروا |
| کاش کچھ تو وہ بھی کرتا، گر طلب ہوتی کہیں |
| اب نہ دنیا کام کی ہے، نا رہا میں کام کا |
معلومات