گزر گئی یہ شب بھی بیداری میں |
ترے خیالوں ہی کی سرشاری میں |
گراں بہا ہے تنہائی کہ مجھ کو |
ہے لطف آتا مردم بےزاری میں |
مجھے شکایت کرنی آتی کب ہے |
سو بیتے ہر لمحہ آہ و زاری میں |
تو سنگ دل ہے کہ تجھ کو ملتا ہے |
سکون بس میری دل آزاری میں |
تپاک سے ملتے ہو تم تو سب سے |
کہ ہے مہارت تم کو بس عیّاری میں |
ہے کس لۓ آشُفْتَہ عشیار اِتنا |
کریں مروت کیسے ناداری میں |
معلومات