مجھے تم سے بےجا شِکایت نہیں ہے
تری اے مسیحا عنایت نہیں ہے
وفا کیجۓ گر اُٹھایا الم یہ
محبت ہے صاحب سیاست نہیں ہے
وفا کا صلہ ہم وفا مانتے ہیں
ترے ہاں مگر یہ روایت نہیں ہے
نیا تم کہیں اب بنا لو بسیرا
مرا دل مری جاں سلامت نہیں ہے
بڈی اجنبی ہے تری مسکراہٹ
یہ احسان بھی مجھ پر راحت نہیں ہے
تمہاری سنیں گے تمہاری کہیں گے
چلو مان لیں گے قیامت نہیں ہے

0
47