تو سدا ہی ہے مرے روبرو
بے صدا رہے سدا گفتگو
تو کرم تو کر مرے حال پر
تری دید ہو ہے یہ آرزو
تو خیال ہے تو مرا بھرم
پھروں ڈھونڈتا تجھے کو بہ کو
نہیں بس میں تجھ کو میں چھُو سکوں
ترا قرب ہی مری جستجو
ہمہ وقت میرے گمان میں
تری شکل ہے مرے ماہ رو
جسے جانا تھا وہ چلا گیا
یوں ہی بے سبب نہیں جاگ تو

0
94