اب مری آنکھ کو بھی خواب نہیں
وہ حقیقت ہے گر سراب نہیں
جو شکایت ہے میرے منہ پہ کہو
بے رخی تو کوئی جواب نہیں
کمسنی میں خطا معاف سہی
گل پہ آ یا ابھی شباب نہیں
اب جو دل کا معاملہ ہے سو ہے
تو سمجھ لے مجھے عذاب نہیں
لوٹ کر آنا تیرے در پہ مرا
اک ضرورت ہے انتخاب نہیںں
جو وہ عشیار جل رہی ہے وہاں
زندگی تیری ہے کتاب نہیں

78