| زخم میرا ہرا ہو بھی جاۓ تو کیا |
| درد میری دوا ہو بھی جاۓ تو کیا |
| دل پگھلنا نہیں بات بننی نہیں |
| اس سے اب سامنا ہو بھی جا ۓ تو کیا |
| تو نے چھوڈا جہاں وہ وہاں اب نہیں |
| سامنے وہ کھڈا ہوبھی جاۓ تو کیا |
| وہ جہاں جس میں تو اب کہیں بھی نہیں |
| حال اسکا برا ہو بھی جاۓ تو کیا |
| دل کی آواز سن کے بھی آیا نہیں |
| سنگ دل بے وفا ہو بھی جاۓ تو کیا |
| اس کو آنا نہیں بات سننی نہیں |
| غمزدہ دل مرا ہو بھی جاۓ تو کیا |
| بات کیا میں کہوں کیا کروں گفتگو |
| مجھ سے اب یہ خطا ہو بھی جاۓ تو کیا |
| سوز مٹتا نہیں ساز بجتا نہیں |
| یہ سخن جو سزا ہو بھی جاۓ تو کیا |
| جس کی خاطرلکھا اس کو پڈھنا نہیں |
| رائگاں سب لکھا ہو بھی جاۓ تو کیا |
معلومات