مانَندِ عروضی مجھ کو وہ ٹکڑوں میں بانٹتا ہے
کوئی شعر وہ سمجھ کر ترتیب دے رہا ہے
دیکھے حرکت ہر حرف کی دیکھے سکون بھی وہ
آہنگ بنا بنا کے وہ اوزان جانچتا ہے
وہ بے وزن پاۓ یکسر موزوں کلام ہو پھر بھی
ارکان بھی خود ہی دے کے ہر رکن تولتا ہے
وہ فاصلہ بھی دیکھے وہ دیکھے وتَد سبب بھی
جب جی بھر نہ آۓ تو صرف و نحو دیکھتا ہے
گفتار میں رکّھوں سلاست میں بھی بتاؤ کیسے
میں کہتا ہوں نثر میں وہ بحریں تلاشتا ہے
سالم ہو کلام پھر بھی وہ آنکے ہے مُزاحَف
ہر بات ہی میں میری وہ پس نقس ڈھونڈتا ہے

0
20