| اس کی فرقت میں خدا جانے میں کیا کر تا تھا |
| بے خودی شعر پڑھاتی تھی غزل کہتا تھا |
| ہمسفر جس کو سمجھتا تھا یقیں تھا جس پر |
| دل پہ تھی اس کی حکومت وہ یہیں رہتا تھا |
| وہ مقابل ہے تو بت سا یوں کھڑا کیوں ہوں میں |
| دیکھتے ہی اسے ان آنکھوں کو بھر آنا تھا |
| دیکھ اے دستِ جنوں مجھ پہ کرم اتنا کر |
| مسخ کردے تو یہ چہرہ جو کہ مسکا یا تھا |
| آنکھ سے برسے جو تسبیح کے دانے ان کے |
| دل کے لٹنے کا وہ قصہ تھا وہ افسانا تھا |
| میں نے رکھا تھا حفاظت سے جسے سینے میں |
| اس میں آکر کسی قاتل کو ہی بس جانا تھا |
| چوٹ کھاۓ ہوۓ تھے دل و جگر یہ میرے |
| ٹوٹ جانا تھا مجھے مجھ کو بکھر جانا تھا |
| میری بربادیوں کا مجھ سے سبب نا پو چھو |
| آگ گھر کو تھی لگانی مجھے جل جانا تھا |
| میں نے برباد کیا خود ہی کو اپنے ہاتھوں |
| میں یہ ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا آیا تھا |
معلومات