عجب ہے حال دنیا کا عجب حالت مری کی ہے
بڑی مشکل سے جی ہے زندگی میں نے جو بھی جی ہے
کبھی غربت کبھی دنیا کے طعنوں نے ستایا ہے
غریبی اور رسوائی یہی میری کمائی ہے
جہانِ فانی میں باقی رہے گا کیا بتا مجھ کو
تو بھی فانی ہے تو گھبراتا ہے کیوں جان جانی ہے
محبت بھی دلِ نادان ملتی ہے نصیبوں سے
کسے کیا کیسے ملتا ہے الگ ہی وہ کہانی ہے
دلِ آشفتہ لے کر میں اٹھا ہوں بزمِ جاناں سے
بڑھانے کیا مراسم انتہا اپنی جدائی ہے
کتابوں میں لکھی باتیں کہ بس باتیں ہیں بے مطلب
فریبوں کی اسی دنیا میں کیوں عمر اک گنوائی ہے

0
9