| کچھ تو میری حسرتوں کا بھی کبھی انجام ہوگا |
| نا ملے در یار کا اس کی گلی میں نام ہوگا |
| آج پھر آۓ نہیں وعدہ خلافی کر گۓ پھر |
| دل یہ کہتا ہے ابھی مصروف ہونگے کام ہوگا |
| ان کو فرصت ہے کہاں فریاد وہ میری سنیں کیوں |
| غیر کی باہوں میں سمٹے ہیں انہیں آرام ہوگا |
| ان کے دل پر ہے حکومت جانے کس دشمن کی میرے |
| آہیں تو برباد ٹھہریں نالہ بھی ناکام ہوگا |
| شامِ غم کے اس پہر میں منتظر ہم بھی ہیں وہ بھی |
| دیکھیں ملتا ہے کسے وہ جام کس کے نام ہوگا |
| خوب سے ہے خوب تر عشیار قسمت دشمنوں کی |
| ٹھان لی ہے قاضی نے تو صابت ہر الزام ہوگا |
معلومات