| باقی نہ کچھ رہا راکھ کرے تپتا صحرا |
| جو چلے لُو ہے مٹاۓ مرے ہے نقشِ پا |
| خانہ بدوش ہوں در سفرِ صحرا ہوں میں |
| میرا نہ گھر کوئی ہے نا ٹھکانا ہے میرا |
| ایک سراب فقط ہوا حاصل یاں مجھ کو |
| ریگِ رواں مجھے اب ہے نظر آۓ دریا |
| خاک سے جو ہے بنا وہ بنی آدم کیوں کر |
| آپ پرست ہوا ہے خدا خود بن بیٹھا |
| دل کوئی سنگ نہیں کہ نہ رنجیدہ یہ ہو |
| چوٹ لگی تو خموش رہا کچھ نا بولا |
معلومات