باقی نہ کچھ رہا راکھ کرے تپتا صحرا
جو چلے لُو ہے مٹاۓ مرے ہے نقشِ پا
خانہ بدوش ہوں در سفرِ صحرا ہوں میں
میرا نہ گھر کوئی ہے نا ٹھکانا ہے میرا
ایک سراب فقط ہوا حاصل یاں مجھ کو
ریگِ رواں مجھے اب ہے نظر آۓ دریا
خاک سے جو ہے بنا وہ بنی آدم کیوں کر
آپ پرست ہوا ہے خدا خود بن بیٹھا
دل کوئی سنگ نہیں کہ نہ رنجیدہ یہ ہو
چوٹ لگی تو خموش رہا کچھ نا بولا

0
21