تمہیں علم و عرفاں کی وسعت ملے
تمہیں عارفوں کی ہی صحبت ملے
کبھی غم ترے دل پہ دستک نہ دے
کبھی آنکھ نم بھی دکھائی نہ دے
کرو بات تم تو کرو وہ سہی
قلم سے لکھو تو ہو حرفِ سہی
کبھی آزماۓ خدا گر تمہیں
مرے بچے پاۓ وہ صابر تمہیں
محبت کتابوں کی دل میں رہے
شغف عالموں سے تمہارا رہے
کشادہ ہوں راہیں ترے رزق کی
کٹے فصل اچھی ترے عرق کی
مرے بعد مجھ کو بھلانا نہیں
کبھی اپنی ماں کو ستانا نہیں
کرو فقر نا ہو پریشاں زرا
نگہباں تمہارا خدا ہے مرا
سنو بات عشیار کی آخری
خدا ہی ہے اول وہی آخری

0
22