| قید مجھ کو رکھا تھا ماضی کی صداؤں نے |
| رہائی مجھ کو دلائی تبریز سے آتی ہواؤں نے |
| گھر گرہستی سب جنجال چھوڑ آیا تھا |
| محفلیں، مخلوقِ خدا سب چھوڑ آیا تھا |
| اس واسطے اٹھ کے آیا تھا کہ تزاد نہ ہو |
| میری خودی میرے نفس کا سرمایا برباد نہ ہو |
| لازم تھا کہ سکوت کا رستہ چنتے |
| زباں خاموش رکھتے چپ ہی رہتے |
| اب کہ جب میں تنہائی کا ہو گیا |
| کیوں معاملہ باعثِ بحث ہو گیا |
| میرے نزدیق تو میری وقعت کچھ نہ تھی |
| سمجھا تو تم نے بھی مجھے کبھی کچھ نہیں |
| دیکھو بھول جاؤ کہ کوئی میرے نام کا تھا |
| میں کہ مزاق زندگی کا کیا ہوا اسی انجام کا تھا |
| اول تو یہ کہ تم کو میری ہستی گوارہ نہ تھی |
| میری زندگی کچھ بھی تھی مگر زندگی نہ تھی |
| مجھ کو چھوڈ دو میرے حال پر اب ستاؤ مت |
| چلو جاؤ خوش رہو اب شرماؤ مت |
معلومات