نظم: “خدا میرے”
خدا میرے!
میری آنکھوں کو کر دے پتھر،
کہ اب کوئی منظر دکھائی نہ دے،
یہ دنیا، یہ چہرے، یہ بوسیدہ لمحے،
یہ سب بے معنی، یہ سب بے اثر۔
یہ بینائی بھی بن گئی ہے سزا،
ہر منظر میں اک درد پنہاں ملا،
میں دیکھوں تو کیوں دیکھوں، کیا دیکھوں میں؟
یہ دنیا جو ہر پل بکھرتی رہی۔
خدا میرے!
جدا کر دے مجھ سے یہ زخموں کے لمحے،
یہ سانسیں جو بوجھل ہیں، رکنے نہ پائیں،
یہ دیوار گر جائے، آزاد کر دے
یہ زنداں، یہ سائے، یہ تاریک راہیں۔
کبھی مہرباں ہو، جلا خاکِ جاں،
کہ شعلوں میں شاید ملے راستہ،
یہ جلتی ہوئی راکھ کہتی ہے مجھ سے،
کہ جل کر ہی شاید میں خود سے ملوں۔
خدا میرے!
یہ دنیا مری جان کے حق میں نہیں،
یہاں سانس لینا بھی ہے اک حادثہ ،
سنا ہے کہ تُو مرہم ہے ہر درد کا،
تو پھر میرے زخموں کی بھی کچھ ہو دوا۔
اگر یہ مقدر کی لکھی ہوئی بات ہے،
تو پھر مجھ کو اس سے مٹا دے، خدا!

0
29