میں ہوش کی دنیا کو خیر باد کہ چکا ہوں
اپنے دلِ آباد کو برباد کر چکا ہوں
میری ہر بات اب زہر سی لگتی ہے خود مجھ کو
اپنی آج کل کوئی سمجھ نہیں ہے مجھ کو
خُدا راہ میری نادانیوں کو نظر انداز کیجیے
میرے اندر کے شولوں کو نہ اور ہوا دیجیے
میرا وقت آنے کو ہے بہت جلد
رِہا آپ کو ہونا ہے بہت جلد
ذرا رکیے تماشا دیکھتے چلیے
سفید پوشاک میں مجھ کو لپیٹ کے چلیے
پھر نہ آئے گی کوئی صدا قسم خُدا کی
میری شخصیت ہی تھی کچھ جدا سی
مہمان میں ہوں لمحے کا کوئی
کیا فکر کرنی، کیسی اُداسی
میں سُخنور یا شاعر نہیں
کسی فن میں بھی ماہر نہیں
اک فقط دوستی کے لیے بڑھایا تھا ہاتھ
کیا خبر تھی گریباں پہ آئے گا ہاتھ
اب چلو، جو ہے سو ہے یہ بات
کٹ ہی جائے گی یہ اندھیری رات
صبح پھر نئی آئے گی، بس ہم نہ ہوں گے
جب ہم نہ ہوں گے، تم کو غم نہ ہوں گے
میرے ہونے سے ملتی ہے بہت تم کو تکلیف
میں ہی بے آر ہوں اور ستم ظریف
خُدا کرے کہ اب میری کوئی سحر نہ ہو
میرا ہونا اب کسی کے لیے زہر نہ ہو

0
7