رہی نا مکمل ہی اپنی کہانی
گئی ہاتھ سے یوں ہی اپنی جوانی
چلو میں بھی سجدے میں جا کر کے دیکھوں
خدا سےہے تیری شکایت لگانی
کوئی چارہ سازوں کو لے کر کے آۓ
رفاقت انہیں بھی ہے مجھ سے نبھانی
زخَم میرے دل کے کہیں بھر نہ جائیں
ابھی زات انکو ہے باقی دکھانی
مری حسرتوں کی قبَر ہے وہیں پر
تمہیں یاد ہے کیا جگہ وہ پرانی
مرے بس میں کب تھی مری زندگانی
ترے ہاتھ میں تھی تجھے تھی بچانی
تصور میں تیرے ہیں عشیار گم سے
سناتے نہیں کچھ بھی اپنی زبانی

0
13