کچھ نا مکمل سے خواب
چند لمحے بکھرے اِدھر اُدھر
سميٹ لیتا ہوں گرد آلود کچھ ٹکڑے
روٹی کے بکھرے ہوئے زمین سے
شاید قلم کبھی صلہ دے گی
مجھے رب سے اپنے ملا دے گی
اس کشمکش میں مبتلا ہوں
کیا حق ہے، کیا ناحق؟
ابتدا سے ہی سفر ناگوار تھا
گھر کا ہر فرد سوگوار تھا
میں چلتا گیا، کہیں رُکا نہیں
کیسے کہوں کہ میں تھکا نہیں؟
میرے پاؤں کے چھالوں کو دیکھو
میرے حال کا بیان ہیں سر بہ سر
میرے راستے میں ملتے رہے زاغ
دکھاتے رہے بس سبز باغ
فاصلہ اب جو میں نے طے پایا
منزل نہیں ہے، ابتداۓ سفرِ نو ہے
بستی ہو یا کہ ہو کوئی بن
اب کہیں لگتا نہیں میرا من
چلو، نہ کرو اور مجھ کو عاجز
اللہ نگہبان، خدا حافظ

0
10