غزل |
آتش کدہ ہے گھر مرا اس گھر کا کیا کروں |
شرمندگی سے جُھک گیا تو سر کا کیا کروں |
لتھڑے پڑے ہیں خون میں ماؤں کے چاک دل |
ہٹتا نہیں ہے آنکھ سے منظر کا کیا کروں |
بچوں کا قتل عام - مذمّت تو فرض ہے |
کافر کہیں گے شیخ جی اس ڈر کا کیا کروں |
آتی ہیں روز روز میرے گھر قیامتیں |
محشر بپا ہو روز تو محشر کا کیا کروں |
ہاں منبرِ رسول کی حرمت بھی فرض ہے |
منبَر رہینِ شر ہوا منبَر کا کیا کروں |
دِکھتے ہیں خال خال کہیں درد مند بھی |
پر بےحسی تو عام ہے اکثر کا کیا کروں |
ہمدرد ہو تو زخم کی مرہم کرو مرے |
نشتر بجھا ہے زہر میں نشتر کا کروں |
اب میری پوری قوم ہی فرقہ پرست ہے |
یہ کینسر کہ عام ہے اس شر کا کیا کروں |
شہاب احمد |
۱۵ دسمبر ۲۰۱۴ |
معلومات