| غزل |
| چندا کو دیکھ بام پہ پردہ گرا لیا |
| دانستہ ان کی یاد سے دامن چھڑا لیا |
| بڑھ چڑھ کے ہر رقیب نے پھر تبصرے کئے |
| موضوع شوخ نے ہمیں جب سے بنا لیا |
| آوارگی کا آپ نے طعنہ دیا ہمیں |
| پگڑی بنا کے پیار سے سر پر سجا لیا |
| جب ہو سکی نہ ان سے سلیقے کی گفتگو |
| دیرینہ دوستوں کا تمسخر اُڑا لیا |
| لیتا تھا جس کے سر کی بلائیں میں روز و شب |
| ظالم حسد میں اس نے کلیجہ چبا لیا |
| جو بات عرض کرنی تھی بزمِ نیاز میں |
| تو نے شہاب نظم کا مضموں بنا لیا |
| شہاب احمد |
| ۱۹ جون ۲۰۲۰ |
معلومات