غزل
نازک نفیس پا کے بوسے لئے لگن میں
شعلے لطیف لپکے صندل سے اُس بدن میں
بے ساختہ لبوں سے پیوست ہو گئے لب
غنچے حسیں لبوں کے چٹکے جو بانکپن میں
لب کی حلاوتوں سے محظوظ کرتے کرتے
جھٹ سے زبان شیریں رکھ دی مرے دہن میں
بادِ بہار آئی چھو کر حسیں بدن کو
صد رنگ کے شگوفے کھلنے لگے ہیں من میں
آنکھوں میں رچ گیا ہے، میری حسین منظر
برسات ہو رہی ہے، رقصاں ہے وہ چمن میں
کب تک شہاب احمد دل کو نکیل ڈالوں
خط ہو رہے ہیں عریاں، خوش زیب پیرہن میں
شہاب احمد
۲۸ اکتوبر ۲۰۲۴

0
14